کالے دھن کو سفید کرنے کا کھیل آخر کیسے چلتا ہے؟ اس کا ایک بڑا معاملہ
چھتیس گڑھ میں سامنے آیا ہے۔ یہاں 13 بےنامی بینک اکاؤنٹس سے ریاست کی ایک
اسٹیل انڈسٹری کو 493 کروڑ کی بڑی رقم ٹرانسفر کی گئی اور پھر اچانک یہ
اکاؤنٹ ہولڈر غائب ہو گئے۔ جب خود آر بی آئی نے اس معاملے کی تحقیقات کی تو
پایا کہ جن لوگوں کے اکاؤنٹس سے کروڑوں کی یہ رقم ٹرانسفر ہو گئی، انہیں
ایسے کسی ٹرانزیکشن کی معلومات ہی نہیں ہے۔ آر بی آئی یعنی کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے جنوری 2015 میں چھتیس گڑھ کے
رجسٹرار کوآپریٹو ادارے کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں آر بی آئی نے صاف الفاظ
میں کہا کہ ریاست کے 4 پرائیویٹ اور ضلع کوآپریٹیو بینکوں میں 13 بوگس
اکاؤنٹ کھولے گئے اور ان سے 493 کروڑ روپے ایک اسٹیل انڈسٹری کو ٹرانسفر
کئے گئے۔ آر بی آئی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان اکاؤنٹ ہولڈروں کو اس
ٹرانزیکشن کے بارے میں پتہ تک نہیں ہے۔
آر بی آئی کے اس لیٹر کے بعد مارچ 2015 میں رجسٹرار کوآپریٹو ادارے نے ان
کوآپریٹیو بینکوں کو ایک نوٹس جاری کیا جن میں یہ بوگس اکاؤنٹ کھولے گئے
تھے۔ اس نوٹس میں واضح طور پر ان بینک حکام پر کارروائی کرنے کی بات بھی کی
گئی تھی جو اس کالے دھن کو سفید کرنے کے کھیل میں شامل تھے۔ اس کے باوجود
آج تک کسی بینک افسر پر کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ اس پورے معاملے کے
دستاویزات آر ٹی آئی کارکن کنال شکلا نے حق اطلاعات کے تحت حاصل کر جاری
کئے ہیں۔ کنال شکلا نے کہا کہ معاملہ کالے دھن کو سفید کئے جانے کا ہے، بڑی رقم 493
کروڑ ہے۔ 4 پرائیویٹ بینکوں اور کوآپریٹیو بینکوں میں بوگس اکاؤنٹ کھولے
جاتے ہیں۔ ان اکاؤنٹس سے نقدی کے طور پر کل 493 کروڑ روپے پرکاش انڈسٹریز
میں ٹرانسفر کر دیئے جاتے ہیں۔ آج تک پتہ نہیں چل پایا کہ یہ پیسہ کس کا
تھا۔